قارئین! چونکہ میری ساری زندگی پاک سرزمین کی حفاظت کرتے ہوئے پاک فوج میں گزری۔ ایک مرتبہ میری پوسٹنگ کوئٹہ ہوئی‘مجھے وہاں رہائش کیلئے پاک فوج کی طرف سے ایک گھر ملا۔ میں وہ گھر دیکھنے کیلئے گیا تو پڑوس میں ایک دو واقف آدمی تھے‘ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ گھر مجھے آرمی کی طرف سے ملا ہے‘ میں دیکھنے آیا ہوں‘ انہوں نے بتایا کہ اس گھر پر جنات کے اثرات ہیں اور کسی کو بھی یہاں نہیں رہنے دیتے‘ بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں‘ میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا اللہ کرم کرے گا۔ میں نے گھر کی صفائی کروائی اور بیوی بچوں کو لانےسے پہلے وہاں سورۂ یٰسین‘ سورۂ رحمٰن اور چاروں قل کی تلاوت کی اور بلند آواز سے کہا’’اے جنات! میرا آپ سے کوئی تنازع نہیں ہے‘ مجھے یہ گھر پاک فوج کی طرف سے الاٹ ہواہے‘ اس لیے میں یہاں آیا ہوں‘ لہٰذا مہربانی فرما کر یہاں سے چلے جائیں‘ ‘ میری اس آواز پر یک دم ہوا مجھے چھو کر گئی اور گھر میں ایک سکون سا آگیا‘تین چار گھر چھوڑ کر ایک گھر کافی عرصہ سے خالی تھا وہ جنات وہاں چلے گئے۔ وہاں ان کے جانے کا پتہ ایسے چلا کہ اس گھر میں چند دنوں کے بعد ایک فیملی آئی یہ رات کو ان کو پتھر مارتے تھے‘ کبھی ان کے بچوں کو آپس میں بہت سخت لڑاتے تھے‘ جنات نے اس خاندان کو اتنا تنگ کیا کہ وہ گھر خالی کرچلے گئے اور جب بھی کوئی نیا گھرانہ اس گھر میں آتا‘ انہیں شدید تنگ کرتے حتیٰ کہ وہ بھی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے۔ میں وہاں تین سال رہا اور اس مکان میں آنے والوں کے ساتھ یہ ہوتا رہا اور کوئی فیملی اس گھر میں مستقل نہ رہ سکی۔ایک بار مری پوسٹنگ سیالکوٹ ہوئی وہاں مجھے جو گھر ملا اس پر بھی جنات کے اثرات تھے گھر کے ساتھ شیشم کا بہت بڑا درخت تھا‘ ایک جننی خوبصورت کپڑے پہنے شیشم کے درخت سے اتری اور گھر کی چار دیوار ی پر آکر بیٹھ جاتی‘ میری اہلیہ اور چھوٹے بھائی کو بھی یہ نظر آئی‘ جب میری اہلیہ نے اسے دیکھا تو فوراً قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی وہ جننی یہ کہہ کر چلی کہ آج تو نے قرآن پڑھ لیا ہے میں پھر آجاؤں گی۔
میں جتنا عرصہ اس گھر میںرہا یہ جننی ہر دوسرے تیسرے دن ایسا کرتی رہتی تھی لیکن ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچایا۔ الحمدللہ!۔ ہماری ایک رشتہ دار مائی (ع۔ب) تھی‘ اس پر جنات کے اثرات تھے۔ دیہاتوں میں شادی بیاہ کے مواقع پر گوشت مقامی طور پر بنایا جاتا ہے‘ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ یہ مائی وہاں گوشت کے پاس چلی جاتی اور من ڈیڑھ من گوشت کھا جاتی تھی‘ لوگ احتیاط کرتے اور اسے گوشت کے پاس نہ آنے دیتے تھے‘ اس مائی سے چند اور ایسی باتیں بھی ظاہرہوتی تھیں مثلاً: کسی کو رقم کی ضرورت پڑتی تو وہ مائی ’’ع۔ب‘‘کے پاس جاتا کہ خالہ مجھے اتنی رقم کی ضرورت ہے ۔ وہ کہتی: ’’جاؤ فلاں جگہ سے اٹھا لو‘ وہ بندہ جاتا اورجب رقم اٹھاتا تو اتنی ہی ہوتی جتنی اس نے مانگی تھی۔اس کے علاوہ ایک اور بات جو اس سے ظاہر ہوئی وہ یہ کہ جب کوئی خوشی کا موقع ہوتا تو لوگ اس سے مٹھائی مانگتے وہ گردن کے پیچھے ہاتھ ڈالتی اور لڈو نکال کر دے دیتی وہ اس طرح کرتی رہتی اور لڈو نکال نکال کر دیتی رہتی جتنے کوئی کھاتا وہ نکال کر دے دیتی‘ یہ سب جنات کی وجہ سے ہوتا تھا۔میرے چھوٹے بھائی جو عالم ہیں انہوں نے اپنے استاد کی نگرانی میں عملیات کیلئے چلّے شروع کیے‘ بتانے لگے کہ ایک بار میں نے استاد کو بتائے بغیر جنات کی تسخیر کا چلہ شروع کیا جو کہ ایک مکان میں تنہا بیٹھ کر کرتا تھا۔ کہنے لگا دوسرے یا تیسرا دن تھا کہ میں نے پڑھائی شروع کی۔ تھوڑی ہی دیر میں جنات آئے اور مجھے اٹھا کر لے گئے اور ریگستان میں لے کر ایک ٹیلے پر پھینک دیا‘ بہت سے جنات اکٹھے ہوگئے کہ یہ ہمیں مسخر کرنے کا چلہ کررہا تھا‘ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ بعض نے کہا کہ اسے مار دو‘ بعض نے کہا اس کی ٹانگ توڑ دو‘ مختلف جنات نے مختلف مشورے دئیے‘ مشوروں کے دوران ہی ان کا بڑا سردار آگیا‘ اس نے کہا کہ کیا کررہے ہو؟ جنات نے کہا ہم اس کو مارنا چاہتے ہیں‘ سردار نے کہا: اس کا استاد حزب البحر کا عامل ہے‘ تم نے اسے کوئی نقصان پہنچایا تو وہ ہماری نسلیں تہس نہس کرکے رکھ دے گا‘ جاؤ جہاں سے اسے لائے ہو‘ وہاں چھوڑ کر آؤ‘ جنات نے مجھے اٹھایا اور واپس اسی مکان میں چھوڑ آئے جہاں سے لائے تھے۔ بھائی مزید بتانے لگے کہ میں اپنے استاد کے پاس گیا اور تمام واقعہ سنایا۔ استاد نے فرمایا کہ بغیر اجازت کوئی چلہ نہ کیا کرو‘ بغیر اجازت چلہ کرنےسے بہت نقصانات ہوتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں